آذادی گلگت بلتسان ۱۹۴۸

پدم پارٹی ( مجاہدین کی بہادری کے قصے کورس کی کتابوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ...) جنگ آزادی گلگت بلتستان کے آخری دنوں میں صوبیدار محمد علی اپنے ساتھیوں کے ساتھ زانسکار میں پدم کے مقام پر دشمن کے خلاف برسر پیکار تھے ، اس طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا جس کی اطلاع مجاہدین تک نہ پہنچ سکی ، اسی دوران کارگل دراس اور لیہ سیکٹر سے مجاہدین پسپا ہوئے تو دشمن نے سورو اور لیہ کی جانب سے اس پارٹی کا محاصرہ کیا ، یہ پارٹی محصور ہونے کے باوجود لگاتار چھ ماہ تک دشمن سے لڑتے رہے ، جنوری 1949 سے جون 1949 تک محدود ایمونیشن اور محدود راشن کے ساتھ بلتی سورماؤں نے نے جس طرح دشمن کا مقابلہ کیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں ، صوبیدار محمد علی کی موثر جنگی حکمت عملی نے دشمن کے علاقے میں محصور ہو کے مجاہدین کی استقامت اور شوق شہادت نے قرون وسطیٰ کی یاد تازہ کردی ۔ دشمن بار بار ان پہ تابڑ توڑ حملے کرتے اور انہی۔ ہتھیار ڈالنے کا کہتے رہے لیکن مجاہدین نے شہادت کو گلے سے لگانے یا دشمن پر فتح حاصل کرنے کی ٹھان لی ۔۔ دشمن حملہ کرتا اور ہر حملے میں کچھ ہتھیار مجاہدین کے ہاتھ لگتے ، یوں یہ عجیب و غریب جنگ چلتی رہی ، دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ایک مجاہد سکندر کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا اور مجاہدین سے ملا تو سکندر کی زبانی انہیں پتا چلا کہ کرگل اور لیہ لداخ کا علاقہ دشمن کے قبضے میں ہے اور چاروں جانب سے وہ محصور ہو چکے ہیں ، تین مجاہدین نے رضاکارانہ خود کو موت کے حوالے کرنے یا پاکستان پہنچ کر حالات کی اطلاع دینے کا فیصلہ کیا ، نائک غلام علی ، لانس نائیک عبد الرحمن اور سپاہی سلو صرف ایک رائفل ، ایک تلوار ،ایک کلہاڑی اور جھ دن کی راشن کے ساتھ اس پر خطر سفر پہ نکلا ، دس دن مسلسل موت سے آنکھ مچولی کھیلتے یہ تینوں مجاہد اولڈینگ کھرمنگ میں پاکستانی مورچے میں پہنچے ، مورچے میں تعنیات صوبیدار رستم جن کا تعلق نگر سے تھا ، نے اولڈینگ میں کپٹن حمید کو اطلاع دی ،انہوں نے سکردو سیکٹر کمانڈر میجر عبدالرحمن سے بات کی ۔۔ میجر مذکور نے کمانڈنٹ ناردرن سکاؤٹ گلگت اور جی ایچ کیو رابطہ کیا ، پاکستان کی جانب سے لیفٹیننٹ مرتضیٰ کو نمایندہ مقرر کیا ( میجر مرتضی کا تعلق گلگت سے تھا ، میرے مرحوم والد کا استاد تھا ، آخری عمر تک والد سے ان کا رابطہ رہا) ،انڈیا کی جانب سے ایک گورکھا میجر نمایندہ مقرر ہوا ، مذاکرات ہوئے ، لیفٹیننٹ مرتضیٰ کی قیادت میں پچاس جوانوں کا قافلہ دشمن کے ہیڈ کوارٹر پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا ، دشمن نے ان کی بہادری اور استقامت کی کھل کر داد دی ، اس کے بعد دس دن تک یہ قافلہ دشمن کی نگرانی میں سفر کرتا ہوا اولڈینگ کھرمنگ سے پاکستان کی سرزمین پہ پہنچا تو وطن کی مٹی کو چوم لئے ، اولڈینگ میں قوم نے تاریخی استقبال کیا ، جگہ جگہ پھول نچھاور کئے اور حسین آباد سکردو میں میجر عبدالرحمن کی قیادت میں عوام نے پرتپاک استقبال کیا ، سکردو چھاؤنی میں اکیس توپوں کی سلامی دی ،کچھ عرصہ بعد انہیں گلگت لے گیا جہاں وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس قافلے کا استقبال کیا ، بہت کچھ کرنے کا وعدہ کیا ، مبلغ پندرہ ہزار روپے مجاہدین کو انعام دئیے ۔۔ مجاہدین میں سے کچھ کے اسمائے گرامی یہ ہیں : صوبیدار محمد علی ، صوبیدار علی نصیب ڈورو کھرمنگ ، سکندر روندو ، شمشیر ، داؤد ، رستم زھری ، وزیر عبداللہ کواردو ، نقی ،حیدر ، محمد امین سندوس ، محمد جو سندوس ، شیر محمد ، غلام محمد سکمیدان ، محمد شگر ، محمد کریس ، غلام علی خپلو ، محمد کمنگو کھرمنگ ، حاجی حسین حسین آباد ، فدا علی ، اور سرور غندوس کھرمنگ ۔۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را (پدم پارٹی کی بہادری کے قصے تاریخ کی کتابوں سے کھنگال کر کورس کی کتابوں میں شامل کئے جائیں ، وزیراعظم لیاقت علی خان نے جو وعدے کئے وہ ان کے ورثاء کے ساتھ وفا کئے جائیں ... ۔۔۔ یکم نومبر پہ خصوصی پوسٹ )

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog